غضب تھا ان نگاہوں سے نگاہیں چار ہو جانا
غضب تھا ان نگاہوں سے نگاہیں چار ہو جانا
وہ ان کا توڑ کر دل کو جگر کے پار ہو جانا
نزاکت دے اگر مشق خرام ناز کی رخصت
سوئے گور غریباں بھی کبھی اے یار ہو جانا
دل دیوانہ سے کیا بحثتے ہو ہوش میں آؤ
یہ کیا ہے اک ذرا سی چھیڑ پر بیزار ہو جانا
وہ اٹھ جانا کسی عیسیٰ نفس کا میری بالیں سے
وہ اچھا ہوتے ہوتے پھر مرا بیمار ہو جانا
طریق عشق میں اے خضر ہے اک امتحاں یہ بھی
اجل کا سہل ہونا زندگی دشوار ہو جانا
ذرا کچھ ہوش میں آ لیں تو ہم موسیٰ سے یہ پوچھیں
کہ کیسا ہے کسی کا طالب دیدار ہو جانا
ہزاروں پڑ گئے رخنے دل و جاں میں مری رافتؔ
وہ ہٹ کر ان کا روزن سے پس دیوار جانا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.