غزل چھیڑی ہے ناصرؔ کیا ہوا ہے
غزل چھیڑی ہے ناصرؔ کیا ہوا ہے
پرانا زخم پھر تازہ ہوا ہے
تمہیں بھی دل لگی مہنگی پڑی ہے
مجھے بھی پیار میں گھاٹا ہوا ہے
ذرا زلفوں کو بل دے دے ستم گر
تری زلفوں میں دل الجھا ہوا ہے
تری قسمت میں میں ہوں یا نہیں ہوں
مری کنڈلی میں تو بیٹھا ہوا ہے
گل و بلبل کے سستے چوچلوں میں
ہمیشہ باغباں رسوا ہوا ہے
مرا رہبر نہ بن انگلی پکڑ لے
تو میرے سامنے پیدا ہوا ہے
مرا دل خود مرا اپنا نہیں ہے
مجھے تو پیار بھی جھوٹا ہوا ہے
مجھے سب دیکھنے کیوں آ رہے ہیں
ذرا میں بھی تو دیکھوں کیا ہوا ہے
تمہارا دل ہمارے پاس اچھا
اٹھا لو میز پر رکھا ہوا ہے
کہیں مل جائے ناصرؔ تو بتانا
اسے دیکھے ہوئے عرصہ ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.