غزل کہی ہے حدیث غم جہاں کی طرح
غزل کہی ہے حدیث غم جہاں کی طرح
سنیں گے لوگ اسے اپنی داستاں کی طرح
فریب دیتا ہوں دنیا کو انکساری کا
میں اپنے آپ میں پھیلا ہوں آسماں کی طرح
قدم قدم پہ ضیا باریاں معاذ اللہ
یہ رہ گزر ہے کہ پھیلی ہے کہکشاں کی طرح
یہ گل تو گل ہیں چمن کو نہ بیچ دیں ظالم
جو روپ اپنا بنائے ہیں باغباں کی طرح
ضرور سازش کلک ازل تھی کچھ اس میں
پڑا ہوں ایک طرف حرف رایگاں کی طرح
کہاں تھا میرا نشیمن میں سب سے پوچھ آیا
کسی کا گھر نہ جلے میرے آشیاں کی طرح
ٹٹول لینا ذرا ان کی آستینیں بھی
جو تم سے ہاتھ ملاتے ہیں رازداں کی طرح
وہ جن کا راز محبت تھا بے نیاز ہوئے
ہم ان کا راز چھپائے ہیں اپنی جاں کی طرح
کوئی تو جان پہ کھیلے ہے بن کے پروانہ
جلا کرے ہے کوئی شمع بے زباں کی طرح
ملے تو قافلے سو سو شکستہ پا تھے ہمیں
اٹھ اٹھ کے بیٹھ گئے گرد کارواں کی طرح
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.