غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
وہ رتبہ عشق کا اب کب رہا ہے
بشاشت برگ گل میں ہے جو اتنی
کسی کے لب پر اس کا لب رہا ہے
مشوش شکل سے اس گل کی ظاہر
یہ ہوتا ہے کہیں وہ شب رہا ہے
پرستش ہی میں شب آخر ہوئی ہے
ہمارے پاس وہ بت جب رہا ہے
تمہارے عہد میں اے کافرو ہائے
کہاں وہ ملت و مذہب رہا ہے
مرا زانو ترے زانو کے نیچے
اٹھوں کیوں کر کہ کافر دب رہا ہے
اسے کب ناز بستاں کی ہوس ہے
یہ دل نت کشتۂ غبغب رہا ہے
موئے جز میرؔ جو تھے فن کے استاد
یہی اک ریختہ گو اب رہا ہے
نت اس کی مصحفیؔ کھاتا ہوں دشنام
یہی تو میرا اب منصب رہا ہے
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(Vol-4)(pdf) (Pg. 304)
- Author : Ghulam hamdani Mashafi
- مطبع : Qaumi council baraye -farogh urdu (2005)
- اشاعت : 2005
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.