غزل میری بھی اب اکثر روانی چھوڑ دیتی ہے
غزل میری بھی اب اکثر روانی چھوڑ دیتی ہے
مرے پنوں پہ یہ تیری نشانی چھوڑ دیتی ہے
ہمیں موجود رکھتے ہیں ہمارے لفظ لوگوں میں
یہ کایا خاک ہو جاتی زبانی چھوڑ دیتی ہے
جوانی کے نشہ میں تو ذرا یہ دھیان میں رکھنا
یہ چہرے کی چمک اک دن جوانی چھوڑ دیتی ہے
ادا تیرے تکلم کی بہت دل کش ہے میری جاں
مرے ادھروں پہ یہ تیری کہانی چھوڑ دیتی ہے
اسے محتاط رکھتا ہے تجھے کھونے کا ڈر ہر پل
تبھی تو پھر یقیں کرنا دیوانی چھوڑ دیتی ہے
بہت مجھ کو ہنساتی ہے تمہاری یاد اکثر ہی
یہی اکثر مری آنکھوں میں پانی چھوڑ دیتی ہے
اسے یاروں مرے اشعار جانے کیوں نہیں بھاتے
جو اولی ٹھیک سے پڑھ لے تو ثانی چھوڑ دیتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.