غزل مزاج ہے یکسر غزل کا لہجہ ہے
غزل مزاج ہے یکسر غزل کا لہجہ ہے
سراپا جیسے نزاکت کا استعارہ ہے
قدم قدم پہ چراغوں کی سانس رکتی ہے
کہ اب تو شہروں میں جینا عذاب لگتا ہے
جھلستی شام بدلنے لگی ہے پیراہن
ترے بدن کی تمازت میں سحر کیسا ہے
شگفتہ حرف نوا اجنبی سے لگتے ہیں
اداس لفظوں سے اپنا قدیم رشتہ ہے
نہ موسموں میں مہک ہے نہ رت جگوں میں اثر
تمہارے شہر کا موسم بھی کتنا پھیکا ہے
چہار سمت خیالوں کی ریت بکھری ہوئی
ہماری پیاس کا منظر یہ ریگ صحرا ہے
اب اپنی تشنہ لبی پر نہ جائیے گا اثرؔ
سمندروں کا محافظ بھی آج پیاسا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.