گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے
گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے
آخر شب تاریک کا انجام سحر ہے
وہ شام کی صورت ہے نہ وہ رنگ سحر ہے
کس کوکب منحوس کا یا رب یہ اثر ہے
افسانۂ غم سینۂ بلبل میں ہے فریاد
اوراق گل تر میں بعنوان دگر ہے
بے درد ہے انساں تو ہیں سب اس کے ہنر عیب
ہے دل میں اگر درد تو ہر عیب ہنر ہے
ثابت ہے بہ ہر طور غم عشق رم حسن
آرام کو پوچھو تو ادھر ہے نہ ادھر ہے
مصنوع کو صانع سے جدا کر نہیں سکتا
آئینے میں عکس ہنر آئنہ گر ہے
روتی ہوئی آنکھوں میں ہے غرقاب تبسم
پنجاب ہے دہلی میں جو اب راہ گزر ہے
پھولوں میں ترا رنگ ہے کانٹوں میں تری نوک
یہ حسن ترا ہے کہ مرا حسن نظر ہے
محرومؔ مگر عشق تمہارا ہے ریائی
فریاد میں تاثیر نہ آہوں میں اثر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.