گھر ہے تو در بھی ہوگا دیوار بھی رہے گی
گھر ہے تو در بھی ہوگا دیوار بھی رہے گی
زنجیر بھی ہلے گی جھنکار بھی رہے گی
تاریکیوں کے قلب تاریک تر میں ڈھونڈو
اک شمع ماورائے انوار بھی رہے گی
بہتر تھا بے رخی کا اظہار یوں نہ ہوتا
مانا کہ کچھ تو وجہ انکار بھی رہے گی
جس آنکھ کو چھپا کر رکھا ہے ہر نظر سے
وہ نیم وا بھی ہوگی بیدار بھی رہے گی
صحرا طلب کا گویا میدان کربلا ہے
پاؤں میں ریت سر پر تلوار بھی رہے گی
قربت کی ساعتوں میں دوری کا خوف ہوگا
سائے سے روشنی کی پیکار بھی رہے گی
ظاہر ہے سادگی بھی الماسؔ کے سخن سے
لیکن غزل کی فطرت پر کار بھی رہے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.