گھر جلا لیتا ہے خود اپنے ہی انوار سے تو
گھر جلا لیتا ہے خود اپنے ہی انوار سے تو
کاٹ دیتا ہے زمیں سایۂ دیوار سے تو
اس قدر تیز نہ چل سانس اکھڑ جائے گا
طے نہ کر راہ طلب ایک ہی رفتار سے تو
گوشۂ دل کی خموشی کا تمنائی میں
اور ہنگامے اٹھا لایا ہے بازار سے تو
تو ذرا سا بھی اگر فتنہ ہے برپا ہو جا
اپنی قامت نہ بڑھا طرۂ دستار سے تو
آندھیاں اٹھی ہیں وہ دیکھ فلک سرخ ہوا
تودۂ ریگ پہ بیٹھا ہے بڑے پیار سے تو
شب کی تاریکی میں میں نے تجھے پہچان لیا
جب ہویدا نہ ہوا صبح کے آثار سے تو
مدتوں سے تری آنکھوں کے صدف خالی ہیں
اس قدر خوف نہ کھا ابر گہربار سے تو
تذکرے کرتا ہے جلتے ہوئے صحراؤں کے
دشت کو دیکھتا ہے شہر کی دیوار سے تو
منتظر ہے ترا اک عمر سے جنگل شہزادؔ
اس قدر دور نہ رہ اپنے طلب گار سے تو
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 385)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.