گھر کی الجھن سے طبیعت یوں رہی الجھی ہوئی
گھر کی الجھن سے طبیعت یوں رہی الجھی ہوئی
ٹیبلوں پہ جیسے فائل شام تک بکھری ہوئی
آج سارا دن ہی اس نے منتشر رکھا مجھے
رات کی کڑواہٹوں سے چائے جو کڑوی ہوئی
وہ سڑک کے موڑ پر انسان تھا مرتا ہوا
یا تھی اس کے ساتھ میں انسانیت مرتی ہوئی
آپ کے کہنے سے کر لوں کیسے دنیا پہ یقیں
آپ بھی دیکھے ہوئے ہیں دنیا بھی دیکھی ہوئی
شہر چھوڑے اس کو تو برسوں ہوئے ہم آج بھی
دیکھتے ہیں ریل گاڑی دور تک جاتی ہوئی
یوں خزاں کے دور میں شاداب رکھتی تھی مجھے
جیسے چڑھتی بیل سوکھے پیڑ سے لپٹی ہوئی
ننھے منے پھول سارے ایک دم سے کھل گئے
گرمیوں کے دن لگے اسکول کی چھٹی ہوئی
تو نے جو بھیجے تھے میسج اب بھی موبائل میں ہیں
سیو ہے تصویر ساری گیلری میں کی ہوئی
راستے بھر نورؔ میرے ساتھ میں چلتے رہے
چہرہ وہ اترا ہوا سا آنکھ وہ بجھتی ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.