گھر سے باہر کبھی نکلا کیجے
حشمیؔ گلیوں میں ٹہلا کیجے
حسن باتوں میں بھی پیدا کیجے
سامنے آئنہ رکھا کیجے
کیوں کسی اور کو رسوا کیجے
اب کے اپنا ہی تماشا کیجے
پہلے خود آپ کو پرکھا کیجے
اور پھر شکوۂ دنیا کیجے
کہیں سولی نہ سمجھ لے کوئی
اپنی بانہوں کو نہ کھولا کیجے
سوچئے پھول کھلا ہے کیا کیا
صورت سنگ نہ دیکھا کیجے
اتنی فرصت بھی کسے ہے لیکن
گاہے گاہے ہمیں پوچھا کیجے
ہر کوئی منہ میں زباں رکھتا ہے
روکتا کون ہے بولا کیجے
یہ بھی انداز ہے اک چھپنے کا
اس قدر پاس نہ آیا کیجے
آنے لگتی ہے شکستوں کی صدا
ایسے خاموش نہ بیٹھا کیجے
ربط بھی رکھتا ہے معنی اپنے
بات بے بات نہ ٹوکا کیجے
حشمیؔ غم نے پھر انگڑائی لی
حشمیؔ پھر غزل انشا کیجے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.