گھر سے دفتر اور پھر دفتر سے گھر کافی ہے کیا
گھر سے دفتر اور پھر دفتر سے گھر کافی ہے کیا
زندگی تو ہی بتا اتنا سفر کافی ہے کیا
کون سمجھے گا مری تنہائیوں کے مسئلے
ہے زمانہ یوں تو میرے ساتھ پر کافی ہے کیا
آج کل میرے تعاقب میں ہیں آنکھیں یار کی
ابتدائی عشق میں اتنا اثر کافی ہے کیا
جل کے مرنا چاہیئے تھا گرمیٔ اخلاص میں
حیف دیوانہ ہوا خستہ جگر کافی ہے کیا
حسن تجھ میں اور تھوڑی دل کشی درکار ہے
آتشیں ابرو قیامت سی نظر کافی ہے کیا
عشق میرے اور تجھ کو کیا وظیفہ چاہیئے
دیکھ آخر ہو گیا میں در بہ در کافی ہے کیا
پھر عناصر نے بدل لی صورت ترتیب اور
عالم ہستی ہوا زیر و زبر کافی ہے کیا
بے دلی سے آئے تھے ہم بھی کبھی صحراؤں میں
دل تو یاں لگنے لگا اپنا مگر کافی ہے کیا
ہاں کبھی جھکتا نہ تھا خلق خدا کے سامنے
تیرے سجدوں میں جھکا جاتا ہے سر کافی ہے کیا
کیا کروں ایسا کہ اپنے دل میں وہ رکھ لے مجھے
سن کرنؔ یہ شعر گوئی کا ہنر کافی ہے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.