گھر سے وہ غیرت پری نکلا
گھر سے وہ غیرت پری نکلا
مر گیا کوئی کوئی جی نکلا
اپنا ارماں نہیں کبھی نکلا
کب کوئی مطلب دلی نکلا
اسی حسرت میں تن سے جی نکلا
جی کا ارماں نہ ایک بھی نکلا
دشمن اپنا نہ دوست ہی نکلا
چرخ بھی درپئے بدی نکلا
دعوائے عشق ہم کو تھا اب تک
غیر بھی آج مدعی نکلا
گالیاں تک بھی مجھ کو دیتے نہیں
اس میں کیا لطف دشمنی نکلا
ہجر کا روز ہے غضب خونخوار
کہ جہاں آیا خون پی نکلا
ابھی بیٹھے رہو مری بر میں
دل کا ارماں نہیں ابھی نکلا
جس کو کل اس نے قتل کر ڈالا
وہ ہمارا ہی آدمی نکلا
لب میگوں کے عشق میں اب تو
محتسب بھی شراب پی نکلا
ہجر جاناں ہے یا کہ موت مری
وہ اٹھا بر سے تن سے جی نکلا
حیف اس رشک زہرہ یوسف کا
غیر منحوس مشتری نکلا
گالیاں دیتے جاؤ دل لے لو
یہ نیا طرز دلبری نکلا
موت کیا اپنی جان لے جاتی
آنکھ جو کھول دی وہی نکلا
لب جاں بخش مت ہلا قاتل
جو ہوا قتل وہ ہی جی نکلا
سمجھے بلبل کو ہم تھے عالم عشق
اک گلستاں کا مبتدی نکلا
چار کا گو غلط ہوا دعویٰ
ایک بوسہ تو واجبی نکلا
غیر کو چار ہم کو بوسے دو
خوب قانون منصفی نکلا
ہم یہ سمجھے کہ بس وہی آیا
شب ہجراں میں جو کوئی نکلا
وعدۂ وصل کی جو ایفا میں
نہ انہیں عذر کوئی بھی نکلا
بولے قائل ہی کر دیا ہم کو
تو بڑا کوئی منطقی نکلا
سحرؔ ہم رند جانتے تھے تجھے
تو تو پہنچا ہوا ولی نکلا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.