گھٹا دیا رتبہ ہر حسیں کا مٹا دیا رنگ حور عین کا
گھٹا دیا رتبہ ہر حسیں کا مٹا دیا رنگ حور عین کا
نہیں ہے یہ چاند چودھویں کا شباب کا میرے مہ جبیں کا
یہ رات ہے وصل کی مری جاں بھرے ہیں دل میں ہزاروں ارماں
نہیں نہ نکلے زباں سے ہاں ہاں ارے یہ موقع نہیں نہیں کا
تباہ وحشت میں ہوں میں در در ابھی بگڑ جائے یہ بنا گھر
جو دل میں رکھوں تجھے ستم گر تو دل نہ رکھے مجھے کہیں کا
نہ قتل سے میرے ہاتھ کھینچو لہو بہا کر بہار دیکھو
پڑے گی اڑ کر جو چھینٹ اس کی بنے گی وہ پھول آستیں کا
ستم تھا بچپن کا وہ زمانہ غضب وہ دل کا پسند آتا
وہ گود میں میری لوٹ جانا مچل مچل کر کسی حسیں کا
تمہیں سے روئے زمیں معطر تمہیں سے سطح فلک منور
تمہیں تو ہو پھول یاسمیں کا تمہیں تو ہو چاند چودھویں کا
ادھر صبا نے یہ گل کھلایا چمن میں کلیوں کو گدگدایا
ادھر ہنسی نے ستم یہ ڈھایا کہ منہ لیا چوم اس حسیں کا
یہ رات اتنی جو بڑھ گئی ہے سیاہی اتنی جو چڑھ گئی ہے
کہیں کھلا ہے ضرور جوڑا کسی کے گیسوئے عنبریں کا
جو غیر سے یار تو ملا ہے تو دیکھ کیسا ڈبو رہا ہے
تجھے مرے آنسوؤں کا دریا مجھے پسینہ تری جبیں کا
نہ بحر جاری سحاب سے ہے نہ چاہ لبریز آب سے ہے
وہ دامن تر کا اک لقب ہے یہ نام ہے میری آستیں کا
جو دیکھ لے اس کی صورت انسان اگر ہو کافر تو لائے ایماں
جمال کیا ہے بت حسیں کا کمال ہے صورت آفریں کا
نہ شوق نظارہ مجھ سے پوچھو یہ کہہ کے سوتا ہوں روز شب کو
اٹھوں جو میں صبح کو الٰہی تو منہ دکھانا کسی حسیں کا
کچھ ایسی کی میں نے جبہہ سائی کہ مٹ گئی بخت کی برائی
ملا جو اس در سے داغ سجدہ ستارہ چمکا مری جبیں کا
زباں سے ہو شکر ادا کہاں تک بڑا ہی تھا دل نواز ناوک
کچھ اس ادا سے جگر پہ بیٹھا مزہ ملا یار ہم نشیں کا
پھرا عدم سے نہ کوئی ہمدم کہ حال یاروں کا پوچھتے ہم
عجیب دلچسپ ہے دو عالم کہ جو گیا ہو گیا وہیں کا
عرق عرق ہے جو روئے گلگوں یہ خوب موقع ہے اب نہ چونکوں
میں سر نوشت اپنی دھو ہی ڈالوں پسینہ لے کر تری جبیں کا
جلیلؔ کیا بات اس سخن کی غزل میں ہے تازگی چمن کی
جو شعر ہے شاخ نسترن کی جو لفظ ہے پھول یاسمیں کا
- Taaj-e-sukhan
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.