گھٹائیں باندھ رہا تھا میں حسن کی لٹ میں
گھٹائیں باندھ رہا تھا میں حسن کی لٹ میں
پسینے چھوٹ گئے شعر کی سجاوٹ میں
سچ ایک چھوٹا سا جملہ تھا کہہ دیا ہوتا
ہزار لفظ لگے جھوٹ کی بناوٹ میں
وہ کیسا دور تھا ہم راحتوں کے حاکم تھے
تمام رات گزرتی تھی ایک کروٹ میں
جنہوں نے تاش کے پتوں کا گھر بنایا ہے
دکھائی دیتا ہے طوفان ان کو آہٹ میں
جدید نسل میں کتنا اتاولا پن ہے
شجر لگاتے ہی پھل چاہئے فٹافٹ میں
پھر اس کے بعد کبھی پیاس بجھ نہیں پائی
کسی نے پانی پلایا تھا چھپ کے گھونگھٹ میں
کہاں تو آیا تھا تیاری کرنے محشر کی
کہاں میں پھنس گیا دنیا جہاں کے جھنجھٹ میں
وہ کالی آنکھیں وہ مٹکی وہ ریشمی آنچل
الجھ کے رہ گیا دل کا قرار پنگھٹ میں
میں جنگ جیت کے لوٹا ہوں اس لئے اخلاقؔ
سکون بیٹھا ہوا ہے مری تھکاوٹ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.