گھٹائیں گھرتی ہیں بجلی کڑک کے گرتی ہے
گھٹائیں گھرتی ہیں بجلی کڑک کے گرتی ہے
یہ کس کی پیاس ہے جو بے قرار پھرتی ہے
عجیب خوف کی بستی ہے یہ دیا ہی نہیں
ہوا بھی خواہش دل کو چھپائے پھرتی ہے
نظر نہ پھیر ندامت کو سیر ہونے دے
یہ بدلی دل میں کہاں روز روز گھرتی ہے
سمیٹ لیتی ہے ہر شے کو اپنے پیکر میں
شبیہ کس کی ہے جو پتلیوں میں پھرتی ہے
حویلی چھوڑنے کا وقت آ گیا ارشدؔ
ستوں لرزتے ہیں اور چھت کی مٹی گرتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.