گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
ہنگامے سے سناٹے تک اپنا حال تماشا ہے
بوجھل آنکھیں کب تک آخر نیند کے وار بچائیں گی
پھر وہی سب کچھ دیکھنا ہوگا صبح سے جو کچھ دیکھا ہے
دھوپ مسافر چھاؤں مسافر آئے کوئی کوئی جائے
گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے یا رستہ ہے
آدھی عمر کے پس منظر میں شانہ بہ شانہ گام بہ گام
تو ہے کہ تیری پرچھائیں ہے میں ہوں کہ میرا سایہ ہے
ہم ساحل کی سرد ہوا میں خوابوں سے الجھے ہیں فروغؔ
اور ہمارے نام کا دریا صحرا صحرا بہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.