گھرا ہوں دو قاتلوں کی زد میں وجود میرا نہ بچ سکے گا
گھرا ہوں دو قاتلوں کی زد میں وجود میرا نہ بچ سکے گا
میں زرد جنگل سے بچ گیا تو پہاڑ اک مشتعل ملے گا
ہزیمتوں کے سفر کا راہی افق کو دیکھے گا بے بسی سے
افق سے بڑھتا ہوا سمندر زمیں کو قدموں سے کھینچ لے گا
جلا کے گھر سے رقیب شمعیں ہوا میں ہم تم نکل پڑے ہیں
یہی ہے دونوں کو انتظار اب کہ پہلے کس کا دیا بجھے گا
پھر ایک سفاک سخت جھونکا برہنہ تر کر گیا شجر کو
جب اس کو دیکھو گے ختم شب میں تو پتے پتے سے ڈر لگے گا
گداز جسموں کی آہٹوں کا طلسم ٹوٹا نواح جاں میں
فضا سے اب کوئی ہاتھ بڑھ کر اجڑتے موسم میں آگ دے گا
- کتاب : dahliiz per utartii shaam (Pg. 102)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.