گیلی لکڑی کو سلگا کر اشکوں سے ارضی لکھوں گا
گیلی لکڑی کو سلگا کر اشکوں سے ارضی لکھوں گا
آج دھوئیں کے بادل پر میں بارش کو چٹھی لکھوں گا
اس زنداں کے کچھ قیدی ہی میری بات سمجھ پائیں گے
جب پتھر کی دیواروں پر مٹی سے مٹی لکھوں گا
مجھ جیسے کچھ دیوانے ہی زندہ دل ہوتے ہیں صاحب
میں اتنا کمزور نہیں جو پنکھا اور رسی لکھوں گا
کب تک گھر میں بیٹھے بیٹھے اپنے دل کے چھالے پھوڑوں
اب تو ان تپتی سڑکوں پر آوارہ گردی لکھوں گا
ہم دونوں ہی اپنی اپنی فطرت کے مارے انساں ہیں
تو مجھ میں خامی ڈھونڈے گا میں تیری خوبی لکھوں گا
کچھ ایسے تحریر کروں گا اک مصرعے میں دو افسانے
دریا کو ساحل لکھوں گا طوفاں کو کشتی لکھوں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.