گیت خوابوں کی طرح دور سے چل کر آئے
گیت خوابوں کی طرح دور سے چل کر آئے
رات آئی تو اجالوں کے پیمبر آئے
غم کی قندیل جلاؤ کہ بہت ممکن ہے
کوئی مہمان سر شام مرے گھر آئے
اپنے بچھڑے ہوئے سورج کا خیال آتے ہی
سامنے وقت کے تاریک سمندر آئے
ذہن مفلوج روایت کی تھکن چہروں پر
ہائے کس شان سے محفل میں سخنور آئے
طنز کرنے مری جلتی ہوئی تنہائی پر
آرزوؤں کے تراشے ہوئے پیکر آئے
لوگ پھرتے ہیں یہاں حرف ملامت کی طرح
زندگانی کا یقیں آئے تو کیوں کر آئے
دل میں اس طرح رکے درد وفا کے لمحے
جس طرح شہر میں چنگیز کا لشکر آئے
جس طرف مجمع احباب کھڑا تھا جامیؔ
ہم پہ آئے تو اسی سمت سے پتھر آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.