گلہ کیسا کوئی پردیس میں اپنا نہیں ہوتا
گلہ کیسا کوئی پردیس میں اپنا نہیں ہوتا
کسی صحرا میں سر پر پیڑوں کا سایا نہیں ہوتا
ہے اپنی زیست کی مٹی کی کچھ تاثیر ہی ایسی
کہ اس کے باغ کا کوئی بھی پھل میٹھا نہیں ہوتا
بری ہو جاتی ہے اک بھیڑ اپنے سب گناہوں سے
اسی اک بات سے کہ بھیڑ کا چہرہ نہیں ہوتا
تمہاری بزم میں کیا کام ہے ہم جیسے لوگوں کا
جہاں پتھر ہی پتھر ہوں وہاں شیشہ نہیں ہوتا
خسارے عشق کے بتلاؤ پر یہ بھی تو بتلاؤ
وہ ہے کیا کام کہ جس میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا
ہمارے پاؤں کی بیڑی ہماری سوچ ہوتی ہے
کوئی پتھر ہماری راہ کا روڑا نہیں ہوتا
کوئی کچھ بھی کہے لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے
کسی پر شک کوئی یوں ہی کبھی پیدا نہیں ہوتا
مکمل چاند پر جانے کا سپنا ہو گیا کب کا
محبت کا ہی سپنا جانے کیوں پورا نہیں ہوتا
پرندے پوچھتے پھرتے پتہ کیوں کر کے پنجروں کا
اگر کچھ آسمانوں میں انہیں خطرہ نہیں ہوتا
نکلتی ہے سدا کڑوی سے کڑوی بات ہی جن سے
انہیں لب کا دیا بوسہ کبھی کڑوا نہیں ہوتا
ہمارے دل کے جنکشن پر محبت نام ہے جس کا
کبھی غلطی سے بھی اس ٹرین کا رکنا نہیں ہوتا
معافی مانگ کر حیرت میں ڈالو مت ہمیں بلونتؔ
یہاں اپنے کئے پر کوئی شرمندہ نہیں ہوتا
اسی خاطر میں دشمن کی کبھی گنتی نہیں کرتا
مجھے معلوم ہے کے بھیڑ کا چہرہ نہیں ہوتا
میاں فرہاد و مجنوں سے تو عاشق آج کا اچھا
کم از کم عشق میں اب جان کا خطرہ نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.