گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
وہ دل میں مرے آبلہ ہو گیا
سمجھتے ہیں وہ فرض اس کی شکست
مرا دل بھی عہد وفا ہو گیا
کہوں کیا نہ دیکھیں جو میری طرف
تغافل شریک حیا ہو گیا
وہ کرتے ہیں سن کر ستم اور بھی
مرا نالہ شکر جفا ہو گیا
قیامت ہوئی اس کی رفتار سے
یہ ہنگامہ ہنگامہ زا ہو گیا
بد و نیک کا ان پہ کیا اعتراض
جو چاہا کیا جو کیا ہو گیا
شب وصل ہونے کی ہے یہ دلیل
شب ہجر سے دن سوا ہو گیا
اثر سب کھچا اس کی گفتار میں
مرا نالہ بھی نارسا ہو گیا
وہ صورت ہے دل کش کہ اس ظلم پر
زمانہ ترا مبتلا ہو گیا
ملا دے جگر کو بھی دل میں خدا
کہ اب شوق حد سے سوا ہو گیا
غم و رنج و حرمان و اندوہ کو
مرا سینہ ملک بقا ہو گیا
محبت میں الزام کیا دل کو دوں
یہ گمراہ تھا مجھ کو کیا ہو گیا
ہجوم بلا ہاے ہجراں نہ پوچھ
تجھے کیا جو کچھ ہو گیا ہو گیا
انا العشق کہنا نہ آیا مگر
کہ منصور انا الحق سرا ہو گیا
یہ تقویٰ جوانی میں سالکؔ مگر
برے وقت میں پارسا ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.