گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر
گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر
محاذ زیست سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر
اسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہیں
کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دو بدو ہو کر
بجھا چراغ ہے دل کا وگرنہ کیسے مجھے
نظر نہ آئے گا وہ میرے چار سو ہو کر
ہم اپنے آپ ہی مجرم ہیں اپنے منصف بھی
خود اعتراف کریں اپنے روبرو ہو کر
اس ایک خواہش دل کا پتا چلا نہ اسے
جو درمیاں میں رہی صرف گفتگو ہو کر
میں سب میں رہتے ہوئے کس طرح بھلاؤں تجھے
ہر ایک شخص ہی ملتا ہے مجھ کو تو ہو کر
اب اس کے سامنے جاتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
بھلا دیا تھا جسے محو جستجو ہو کر
ہوئی نہ جذب زمیں میں تو رات کی بارش
فضا میں پھیل گئی خاک رنگ و بو ہو کر
مٹا جو آنکھ کے شیشوں سے اس کا عکس نسیمؔ
رگوں میں پھیل گیا خوں کی آرزو ہو کر
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 47)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.