گو اب مرے وجود پہ سر ہے نہ دوش ہے
گو اب مرے وجود پہ سر ہے نہ دوش ہے
پھر بھی وہی جنوں وہی جوش و خروش ہے
تجھ سا کوئی نہیں ہے وگرنہ جہان میں
کوئی ذہین ہے تو کوئی سخت کوش ہے
تو نے رکھا نہ حلقۂ احباب میں جسے
وہ شخص آج بھی ترا حلقہ بگوش ہے
رن میں ہمیں رجز کی ضرورت نہیں کہ اب
اتنا بدن میں خون نہیں جتنا جوش ہے
ادراک سے فزوں ہے مری حالت جنون
تو جانتا نہیں کہ تجھے عقل و ہوش ہے
انسان کے مزاج میں یکسانیت نہیں
میں کیسے مان جاؤں کہ بندہ سروش ہے
اتنا غرور قصر شہی پر نہ کیجیے
یاں کوئی مستقل نہیں خانہ بدوش ہے
بس میں ہی چپ نہیں ہوں سر بوستان عشق
بلبل بھی گل کے ساتھ برابر خموش ہے
یہ کون پڑھ رہا ہے مراثی انیس کے
ہر سمت مرحبا کی صدا زیب گوش ہے
وہ آنکھ آنکھ ہے کہ جو رکھتی ہے معرفت
وہ گوش گوش ہے جو حقیقت نیوش ہے
میں جو ہوا ہوں قریہ بہ قریہ ذلیل و خوار
اس میں بھی تیرے طرز تغافل کا دوش ہے
واعظ برا نہ کہہ مری بزم نشاط کو
یاں پر تری بہشت سے کم ناؤ نوش ہے
اتنی شفق نما ہے رخ یار کی پھبن
جتنی چراغ شام کی لو سرخ پوش ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.