غبار احساس پیش و پس کی اگر یہ باریک تہ ہٹائیں
غبار احساس پیش و پس کی اگر یہ باریک تہ ہٹائیں
تو ایک پل میں نہ جانے کتنے زمانوں کے عکس تھرتھرائیں
خزاں اگر اپنا خوں نہ بخشے تو فصل گل کیسے سرخ رو ہو
سکوت اپنا جگر نہ چیرے تو کیسے جھنکار دیں صدائیں
بکھر چلے ہیں بکھر چکے ہیں گل عبارت کے برگ ریزے
کتاب جاں کی شہادتوں کا ورق ورق لے گئیں ہوائیں
ہوا کی بے رنگ تختیوں پر صدا کی تحریر کیا ابھاریں
سکوت کے بے نشاں کھنڈر میں چراغ آواز کیا جلائیں
یہ شوق کی بے نصیب کلیاں یہ درد کے بے خزاں شگوفے
تمہارے قدموں میں رکھ نہ پائے تو کس کی چوکھٹ پہ جا گرائیں
ہوا کی تلوار چل رہی ہو تو شاخ امید کیا سنبھالیں
بدن کی دیوار گر رہی ہو تو دل کی دیوار کیا بچائیں
تماشا گاہ طرب نشاں میں سبھی کو لازم ہے مسکرانا
جو غم فروشی نہ کرنا چاہیں وہی یہاں بخت آزمائیں
مہیب راتوں میں ڈگمگاتے دکھی بدن کے مسافروں کو
اکیلے پن میں ڈرا رہی ہے سمے کے جنگل کی سائیں سائیں
تمام الفاظ مر چکے ہیں تمام احباب جا چکے ہیں
گئی رتوں کے ستم کا قصہ سنائیں کیسے کسے سنائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.