گل خلوص کی ترسیل میں کمی نہیں کی
گل خلوص کی ترسیل میں کمی نہیں کی
خدا گواہ کہ تائید بے رخی نہیں کی
نگاہ بد نہ تری آئی یاد کو لگ جائے
اسی خیال سے کمرے میں روشنی نہیں کی
تری گلی سے بھی خود کو حسیں سمجھتے تھے
سو میں نے ایسے نظاروں سے بات ہی نہیں کی
اچٹتی ایک نظر تیری پڑ گئی جب سے
کسی سے ہم نے زمانے میں دوستی نہیں کی
خرد کی مسند عظمیٰ بچھاؤ اس کے لیے
میان دشت جنوں جس نے زندگی نہیں کی
یہ کیسا زعم تھا کن عالموں میں رہتا تھا
دیے نے کس لیے بیعت چراغ کی نہیں کی
تمہیں بتاؤ ملاقات سے ہے کیا حاصل
جو بات کرنی تھی اس سے اگر وہی نہیں کی
ہماری پیاس کے صحرا میں بود و باش تو ہے
مگر شکایت تشنہ لبی کبھی نہیں کی
خزانہ علم و ہنر کا لٹا رہا ہے وہ نورؔ
برائے ناموری اس نے شاعری نہیں کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.