گلاب چہروں کی شادمانی کا کیا بنے گا
گلاب چہروں کی شادمانی کا کیا بنے گا
کہ باغ چھوڑا تو باغبانی کا کیا بنے گا
ہمارے آنسو کسی ٹھکانے تو لگ رہے ہیں
فرات کے بد نصیب پانی کا کیا بنے گا
اسے زمانے کی فکر ہے اور میں سوچتا ہوں
ہماری اٹھتی ہوئی جوانی کا کیا بنے گا
تری انگوٹھی ہماری انگلی جکڑ چکی ہے
تو جا رہا ہے تو اس نشانی کا کیا بنے گا
خدا کرے کہ ہمارے حصے میں تو نہ آئے
جو تو ملے گا تو رائیگانی کا کیا بنے گا
حسنؔ میں سیناپتی ہوں مرنے کا ڈر نہیں ہے
میں سوچتا ہوں کہ راجا رانی کا کیا بنے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.