گلوں کو چوم کر آئی صبا سی لگتی تھی
گلوں کو چوم کر آئی صبا سی لگتی تھی
تھی اک نظر پہ معطر ہوا سی لگتی تھی
میں زخم زخم تھا لیکن گلاب ہاتھوں میں
بڑی تھی چوٹ تو لیکن ذرا سی لگتی تھی
وہ ترش گو لب جاں بخش بھی تھا کیا کہئے
کہ تلخ بات بھی اس کی دوا سی لگتی تھی
ستم کو حسن ستم کر گیا وہی ورنہ
یہی تھی زندگی لیکن سزا سی لگتی تھی
مری تڑپ کو سمجھتا تھا اک عبادت وہ
مجھے بھی اس کی محبت دعا سی لگتی تھی
چلو وہ آنکھ میں پانی تو دے گیا ورنہ
یہ سانس اندھے کنویں میں صدا سی لگتی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.