گلوں سے دور جانے کا ارادہ تو کیا تھا
گلوں سے دور جانے کا ارادہ تو کیا تھا
ہوا سے خوشبوؤں نے استفادہ تو کیا تھا
ہم اک دوجے سے اعلان مسرت کر نہ پائے
بچھڑ کے ہم نے خوش رہنے کا وعدہ تو کیا تھا
مگر دل ہو گیا میرا سپرد رقص وحشت
کسی کے عشق میں دل کو کشادہ تو کیا تھا
تری مخمور آنکھوں کی عبارت یاد آئی
کسی نے آج ذکر جام و بادہ تو کیا تھا
نظر آنے لگا رنگ فریب و مکر اس میں
بظاہر اس نے کچھ دن خود کو سادہ تو کیا تھا
لباس امن پر کیوں گرد نفرت جم گئی ہے
میاں تم نے محبت کو لبادہ تو کیا تھا
خسارے میں ہے دل کوئی تو دلبرؔ کو بلائے
یہاں اس نے کم از کم کو زیادہ تو کیا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.