گلشن امید یوں اجڑا کہ صحرا ہو گیا
گلشن امید یوں اجڑا کہ صحرا ہو گیا
اس نے آنکھیں پھیر لیں ہر سو اندھیرا ہو گیا
موج تا بہ موج پھیلی ہے بساط کائنات
پیاس جب ڈوبی سمندر اور گہرا ہو گیا
بے بسی کی دھوپ جب خوابوں کے چہرے پر پڑی
آپ کی یادوں کا سایا اور گہرا ہو گیا
تابش جلوہ کی یہ رنگینیاں کس سے کہوں
میری نظروں میں ہر اک منظر سنہرا ہو گیا
تیرگی ہی تیرگی تھی بزم احساسات میں
آپ جب آئے کرن پھوٹی سویرا ہو گیا
بے حقیقت زندگی کی ہر حقیقت ہے سراب
آئے ٹھہرے اور چلے دو دن بسیرا ہو گیا
کیوں ہے اے ناشادؔ ہر سو آج تیرا تذکرہ
ایسا لگتا ہے کہ شاید کوئی تیرا ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.