گلزار کے جلنے کا نشاں کچھ بھی نہیں ہے
گلزار کے جلنے کا نشاں کچھ بھی نہیں ہے
شعلے نہ شرر اور نہ دھواں کچھ بھی نہیں ہے
ہونے پہ بھی سب کچھ یہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے
سب کچھ ہے یہاں پھر بھی یہاں کچھ بھی نہیں ہے
مایوس نہ ہوں یہ بھی ہے تمہید بہاراں
اے اہل چمن جور خزاں کچھ بھی نہیں ہے
سرمایۂ ہستی کا ہوا کرتا ہے سودا
سودے میں مگر سود و زیاں کچھ بھی نہیں ہے
جو کچھ بھی نظر آتا ہے دھوکہ ہے نظر کا
پیش نگہ دیدہ وراں کچھ بھی نہیں ہے
ہر شے وہ تجھے جس پہ حقیقت کا ہے دھوکہ
جز شعبدۂ وہم و گماں کچھ بھی نہیں ہے
قطرہ بھی ہے بے بود سمندر بھی ہے بے بود
یہ کاہ سبک کوہ گراں کچھ بھی نہیں ہے
مے ریختہ ٹوٹا ہوا خم جام شکستہ
میخانے میں اے بادہ کشاں کچھ بھی نہیں ہے
گل زینت کاشانۂ گلچیں ہوا بلبل
حصہ ترا جز آہ و فغاں کچھ بھی نہیں ہے
جو کور ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے ہیں ورنہ
تقدیر کے پردے میں نہاں کچھ بھی نہیں ہے
کیا پوچھ رہے ہو کہ خوشی کیا ہے الم کیا
پھر تجھ سے میں کہتا ہوں کہ ہاں کچھ بھی نہیں ہے
ظالم کی زباں اور کف جلاد ہے سب کچھ
یہ تیغ یہ خنجر یہ سناں کچھ بھی نہیں ہے
مقصود جو اپنا ہے ولیؔ سامنے اس کے
دنیا ہو وہ یا باغ جناں کچھ بھی نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.