گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں
گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں
اپنے سوئے ہوئے ساتھی کو جگا لوں تو چلوں
پھر بکھر جاؤں گا میں راہ میں ذروں کی طرح
کوئی پیمان وفا خود سے میں باندھوں تو چلوں
جانے تو کون ہے کس سمت بلاتا ہے مجھے
تیری آواز کی پرچھائیں کو چھو لوں تو چلوں
بجھ نہ جائیں ترے جلووں کے مقدس فانوس
اپنے بھیگے ہوئے دامن کو نچوڑوں تو چلوں
کتنا گمبھیر ہے کہرام سکوت شب کا
کوئی آواز کا پیکر کہیں دیکھوں تو چلوں
دوش طوفاں سے کوئی موج بلاتی ہے مجھے
ریزہ ریزہ ہے بدن اب اسے چن لوں تو چلوں
کتنی صدیوں کی مسافت ابھی باقی ہے رشیدؔ
ہانپتے جسم کا یہ خول اتاروں تو چلوں
- کتاب : Fasiil-e-lab (Pg. 99)
- Author : Rashiid Qaisarani
- مطبع : Aiwan-e-urdu Taimuriya karachi (973)
- اشاعت : 973
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.