گمرہی سے یوں کمال آگہی تک آ گئے
گمرہی سے یوں کمال آگہی تک آ گئے
ہم بہت بھٹکے مگر تیری گلی تک آ گئے
ان چراغوں کو بتا دو نیند سے جاگیں ذرا
بڑھتے بڑھتے اب اندھیرے روشنی تک آ گئے
زور سے ہنسنے لگے پھر عمر کے سب ماہ و سال
ہم نے یہ پوچھا تھا کیا ہم زندگی تک آ گئے
جو کہا میں نے وہاں تک کوئی بھی پہنچا نہیں
ان سنی کرتے ہوئے سب ان کہی تک آ گئے
زندگی کے ہر قدم پر اک نیا بکھراؤ ہے
ہم بڑی ترتیب سے بے رہ روی تک آ گئے
اک نئے مفہوم سے تحریر کرنا ہے انہیں
بہتے بہتے اب مرے آنسو خوشی تک آ گئے
ہر عمل کا لازمی ہوتا ہے اک رد عمل
اب فریب اس کے مری سادہ دلی تک آ گئے
ختم ہوتی ہی نہیں خالدؔ اجالوں کی تلاش
دھوپ سے ہوتے ہوئے ہم چاندنی تک آ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.