غرور حسن کو عکس نیاز عاشقی سمجھے
غرور حسن کو عکس نیاز عاشقی سمجھے
زہے غفلت کہ ہم غفلت کو تیری آگہی سمجھے
ہماری بات کو جو آپ سمجھے ہم وہی سمجھے
مگر اس عاشقانہ مصلحت کو آپ بھی سمجھے
ترقی یافتہ صورت جہالت کی ہے علم اپنا
جو کچھ سمجھے وہی دیکھا جو کچھ دیکھا وہی سمجھے
کچھ اس انداز سے پیدا ہوا الفت کا غم دل میں
کہ غم ہی اس کو کہہ سکتے تھے لیکن ہم خوشی سمجھے
انہیں جب رحم آتا ہے تو مجھ پر ظلم کرتے ہیں
نا سمجھا کوئی فطرت عاشقی کی اک وہی سمجھے
حیا آگیں سکوت ناز تھا اظہار الفت پر
مگر مجبور تھی الفت کہ اس کو ناخوشی سمجھے
قدم اک اور آگے رکھ مقام ہوش سجدے سے
خدائی کی وہ خواہش ہے جسے سب بندگی سمجھے
نہ سمجھا ہے نہ سمجھے گا زمانہ مجھ کو اے میکشؔ
کیا ہے جس نے دیوانہ جو سمجھے تو وہی سمجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.