گزر گیا میکدے کا موسم گزر گیا ہے سبو کا موسم
گزر گیا میکدے کا موسم گزر گیا ہے سبو کا موسم
وہ خلوتوں کا گلاب موسم وہ آرزو کی نمو کا موسم
عبث ہے اب یہ تمنا ان کی کہ زخم سارے رفو کریں گے
یہ چاک دامن سمیٹ لوں اب چلا گیا وہ رفو کا موسم
کہ نام تیرا کڑھا ہو جس پہ اسی چنریا کی آرزو میں
گنوائی بالی عمریا اپنی گزر گیا آرزو کا موسم
تجھے ہی فرصت نہ تھی میسر تو اپنا قصہ کسے سناتے
سو تشنہ اپنی رہی کہانی گزر گیا گفتگو کا موسم
خزانے علم و ہنر کے پیارے تمہارے اپنے وجود میں ہیں
تمہیں کہاں جستجو کی فرصت نہیں رہا جستجو کا موسم
تمہارے پرکھوں کی اس زمیں کو نہ باد و باراں کی کچھ کمی تھی
تمہارے صرف نظر سے لیکن ہوا ہوا وہ نمو کا موسم
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 100)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.