گزرنے کو تو شارقؔ اپنی ہر عالم میں گزری ہے
گزرنے کو تو شارقؔ اپنی ہر عالم میں گزری ہے
وہی ہے زندگی لیکن جو ان کے غم میں گزری ہے
وہ افتاد خزاں ہو یا بہاروں کی جنوں خیزی
قیامت ہے پہ سچ پوچھو تو ہر موسم میں گزری ہے
وہ کوئی اور ہوں گے خواہش امن و سکوں والے
یہاں تو عمر ساری کاوش پیہم میں گزری ہے
نہ پوچھ اے ہم نشیں کیا سانحے گزرے محبت میں
اسے کچھ دل سمجھتا ہے کہ جس عالم میں گزری ہے
مجھے جیسے دو عالم مل گئے جب مل گئی شارقؔ
وہ اک ساعت محبت کی جو اس کے غم میں گزری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.