گزرے ہوئے وقتوں کا نشاں تھا تو کہاں تھا
گزرے ہوئے وقتوں کا نشاں تھا تو کہاں تھا
ہم سے جو نہاں ہے وہ عیاں تھا تو کہاں تھا
اس طرح لپٹتی ہے اداسی کہ یہ سوچیں
دو پل کی خوشی کا جو گماں تھا تو کہاں تھا
بستی کا تقاضہ ہے کہیں ہیں تو کہاں ہیں
مجنوں کا بیاباں میں مکاں تھا تو کہاں تھا
بیٹھا ہے مرے پاس کہ چلنا نہیں ممکن
صحبت کی حدوں کا جو نشاں تھا تو کہاں تھا
اب سوچتے ہیں بیٹھ کے گلشن کی فضا میں
صحرا میں ہمارا جو مکاں تھا تو کہاں تھا
پیری ہے بزرگی ہے بڑھاپا ہے کہ کیا ہے
اس کرب میں رہنا کہ جواں تھا تو کہاں تھا
نشہ ہی نہیں سب کا بھرم ٹوٹ رہا تھا
سنتے تھے کوئی پیر مغاں تھا تو کہاں تھا
عامرؔ کو ہمیں ڈھونڈ کے لائیں ہیں بہ مشکل
کہتے ہیں وہ پہلے سے یہاں تھا تو کہاں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.