ہائے کس انجمن ناز سے تو آتی ہے
ہائے کس انجمن ناز سے تو آتی ہے
اے صبا تجھ سے مجھے رشک کی بو آتی ہے
تو نے بیتابیٔ دل اور بھی بیتاب کیا
یاد تجھ سے مجھے اس شوخ کی خو آتی ہے
اتنے دم خم بھی ہیں یا دم ہی دئے جاتے ہیں
آپ کی تیغ کبھی تابہ گلو آتی ہے
ان کے بیمار سے کیا تجھ کو سروکار اے موت
تجھ پہ مرتا نہیں کمبخت جو تو آتی ہے
حرم خاص کا کرتی ہے وہی جان طواف
آب شمشیر سے جو کرکے وضو آتی ہے
کبھی آنکھیں بھی ملیں گے کف پا سے ان کے
ابھی جا جا کے نگہ پاؤں کو چھو آتی ہے
تیغ کھینچی ہے تو اب آپ کھنچے بیٹھے ہیں
جان کھنچ کھنچ کے یوں ہی تابہ گلو آتی ہے
گل امید سے بھرتا ہے فلک یوں دامن
آرزو آنکھ سے ہو ہو کے لہو آتی ہے
تم اچھوتے سہی آغوش تصور میں تو ہو
نہ چھوئیں ہم نگہ شوق تو چھو آتی ہے
منہ سے اب تک تو نکلتا تھا دھواں آہ کے ساتھ
دل کے جلنے کی بھی اب دیر سے بو آتی ہے
ظرف ہے شرط نہیں ہمت ساقی میں کلام
ایک دو جام سے نوبت یہ سبو آتی ہے
بزم احباب کو کرنا نہ پریشاں اے یاسؔ
ہر سخن سے ترے اب درد کی بو آتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.