حائل دلوں کی راہ میں کچھ تو انا بھی ہے
حائل دلوں کی راہ میں کچھ تو انا بھی ہے
غافل سمجھ رہا ہے وہی با وفا بھی ہے
عادت بری ہے غم میں سہاروں کی دوستو
تنہا سلگتے رہنے کا اپنا مزہ بھی ہے
ہم نے بڑے ہی پیار سے رشتے سجائے تھے
اب تم کہو کہ رشتوں میں کیا کچھ بچا بھی ہے
اک ربط مستقل ہے اسی رہ گزر کے ساتھ
جس رہ گزر پہ قافلۂ دل لٹا بھی ہے
ہم رہروان شہر تمنا کو کیا پتہ
منزل رہ طلب سے کہاں تک جدا بھی ہے
ہے آئنے میں عکس مرا ظاہری مگر
باطن میں جھانکئے کہ وہ مجھ سے جدا بھی ہے
مظلوم حسن ہوں سو نہ تنہا سمجھ مجھے
جس کا نہیں ہے کوئی تو اس کا خدا بھی ہے
بے خوف بانٹتے رہو ظلمت میں نور تم
اپنی تپش سے کیا کوئی جگنو جلا بھی ہے
پڑھیے مجھے سلیقے سے پھر سوچیے جناب
کیا درد مستقل ہے مرض لا دوا بھی ہے
ذاکرؔ یہ تاج و تخت ہے منسوب ان کے نام
جن کے سروں پہ سایۂ بال ہما بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.