حال انجام سے پیری میں خبردار ہوئے
حال انجام سے پیری میں خبردار ہوئے
حیف صد حیف کہ اب خواب سے بیدار ہوئے
کس طرح خانہ نشینی سے نہ گھبرا جائیں
آدمی ہم نہ ہوئے نقطۂ پرکار ہوئے
خانۂ چشم میں رکھا نہ بصارت نے قدم
بند جس دن سے ترے روزن دیوار ہوئے
ہے مرے پیش نظر اب بھی تمہارا بچپن
مجھ سے بتلاؤ کہ تم کب سے طرحدار ہوئے
نفع کیا پہونچے کسی کو جو تونگر ہو بخیل
کیا عنادل کو ملا پھول جو زردار ہوئے
پست ہمت ہوئی موسیٰ کی حقیقت سن کر
بھول کر ہم نہ کبھی طالب دیدار ہوئے
موقع دید جب آیا تو نگہ خیرہ ہوئی
مردم دیدہ عجب وقت میں بیمار ہوئے
شیشہ سے بن کے پری بنت عنب جب نکلی
دیکھ کر جامے سے باہر وہیں مے خوار ہوئے
وصل میں تلخیٔ فرقت کی تلافی یہ ہوئی
لب شیرین صنم مجھ سے شکر بار ہوئے
منتشر فکر معیشت سے ہوئے ہوش و حواس
طائر عقل رسا پر ترے بے کار ہوئے
حشر میں عیش کے ساماں ہوئے دشمن طالبؔ
یار غار اپنے جو دنیا میں تھے اغیار ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.