ہاں جھوٹ ہے وہ جان سے تم پر فدا نہیں
ہاں جھوٹ ہے وہ جان سے تم پر فدا نہیں
سچ کہہ رہے ہو غیر کا یہ حوصلہ نہیں
یاد بتاں نہیں کہ خیال خدا نہیں
سب کچھ بشر کے دل میں ہے اے شیخ کیا نہیں
واقف نہیں ہو تم ابھی حال رقیب سے
میں نے برا کہا جو اسے کیا برا نہیں
ٹھہرے رہو کہ بات ہی ہوگی تمام رات
ڈرتے ہو کیوں کچھ اور مرا مدعا نہیں
بھولی بہشت میں بھی نہ انگور کی مجھے
جب پی مئے طہور کہا وہ مزا نہیں
پوری نہ کر جو وصل کی خواہش تو قتل کر
کیا تیری طرح تیغ بھی حاجت روا نہیں
اک میں ہوں اپنے دل میں تجھے دیکھتا ہوں روز
اک تو ہے مڑ کے میری طرف دیکھتا نہیں
پہلے تو اس نے وصل کا اقرار کر لیا
پھر تھوڑی دیر سوچ کے کہنے لگا نہیں
او سونے والے سونے نہ دے گی تجھے کبھی
یہ میری آہ گرم ہے باد صبا نہیں
جاؤ نہ مدعی کی ملاقات کے لیے
تم آؤ یا نہ آؤ یہ مطلب مرا نہیں
اے دل کدھر ہے کوچۂ گیسو سے دے صدا
ڈھونڈھوں کہاں اندھیرے میں کچھ سوجھتا نہیں
سائے کا بھی پتہ نہیں وہ آئے اس طرح
سجدے کہاں کروں کہ کہیں نقش پا نہیں
ثابت ہے جرم عشق تو دعوئ عشق سے
ہم کس طرح کہیں کہ ہماری خطا نہیں
برسات میں بھی تم کبھی پیتے نہیں فہیمؔ
ایسا بھی اب پسند مجھے اتقا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.