ہانپتے موسم تڑختے ٹوٹتے دن کٹ گئے
ہانپتے موسم تڑختے ٹوٹتے دن کٹ گئے
کٹ گئے جلتے پگھلتے کھولتے دن کٹ گئے
چھاؤں کب آئی میسر دشت امکانات میں
بھاگتے سایوں کے پیچھے بھاگتے دن کٹ گئے
چار سو پھیلے تھے کھارے پانیوں کے سلسلے
ساحلوں سے دور ابھرتے ڈوبتے دن کٹ گئے
کب کسی غرفے سے اتری کوئی نا مسطور سطر
حرف و معنی کی کمندیں ڈالتے دن کٹ گئے
کٹ گئے کچھ روز و شب کرتے رقم آشوب عہد
کچھ کڑے وقتوں کی کڑیاں کاٹتے دن کٹ گئے
وہ خنک رت لوٹ کر آئی نہ پھر بیتیں رتیں
آگ تپتی ساعتوں کی تاپتے دن کٹ گئے
ذکر سے اب فائدہ کیا یار جیسے بھی کٹے
سرد سانسوں میں سیاہی گھولتے دن کٹ گئے
آج تک سوچا نہیں تھا اب خیال آنے لگا
کن گلی کوچوں میں پھرتے گھومتے دن کٹ گئے
درد کی کروٹ ہے کیا جانے وہ کیا جس کے بشیرؔ
بے خیالی میں ہی سوتے جاگتے دن کٹ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.