ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ
ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ
سینے پہ لوٹتا ہے غم زندگی کا سانپ
اپنے بدن سے خول انا کا اتار کر
پھنکارتا ہے شام و سحر آگہی کا سانپ
میں کھیلتا ہوں اس سے مگر جانتا ہوں یہ
اک دن مجھے ڈسے گا نئی روشنی کا سانپ
کیوں من کا مور پنکھ نہ اپنے سمیٹ لے
آنگن میں کھیلتا ہے غم عاشقی کا سانپ
موج سراب کا بھی پتہ دور تک نہیں
شدت سے ڈس رہا ہے مجھے تشنگی کا سانپ
تہذیب کا کھنڈر ہے نگاہوں کے سامنے
وہ رینگتا ہے دیکھیے اک خامشی کا سانپ
کیوں نیلکنٹھ بن کے نہ پی جاؤں اس کو میں
جو زہر اگل رہا ہے غم آگہی کا سانپ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.