ہاتھ میں اپنے ابھی تک ایک ساغر ہی تو ہے
ہاتھ میں اپنے ابھی تک ایک ساغر ہی تو ہے
جس کو سب کہتے ہیں مے خانہ وہ اندر ہی تو ہے
دام میں طائر کو لے جاتی ہے دانے کی تلاش
پھر بھی مظلومی و محرومی مقدر ہی تو ہے
کیسی کیسی کوششیں کر لیں میان جنگ بھی
مرد میداں جو بنا ہے وہ سکندر ہی تو ہے
اپنے خالق کی عطا پر ناز ہونا چاہئے
جو حسد رکھتے ہیں ان کا حال ابتر ہی تو ہے
خاک کے ذرے چمکتے ہیں ضیائے نور سے
آسماں پر جو ہے وہ خورشید خاور ہی تو ہے
چھوڑیئے بغض و عداوت تو سمجھ میں آئے کچھ
جو وصیہؔ ہو رہا ہے تجھ کو باور ہی تو ہے
- کتاب : Dana Dana Khirman (Pg. 37)
- Author : Fatima wasia Jaisi
- مطبع : Fatima wasia Jaisi (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.