ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا
ہاتھ سے آخر چھوٹ پڑا پتھر جو اٹھایا تھا
کیا کرتا مجرم بھی تو خود اپنا سایا تھا
ایسا ہوتا کاش کہیں کچھ رنگ بھی مل جاتے
اس نے میرے خوابوں کا خاکہ تو بنایا تھا
اب تو بھی باہر آ جا یوں جسم میں چھپنا کیا
پردہ ہی کرنا تھا تو کیوں مجھ کو بلایا تھا
آج کے موسم سے بے سدھ کچھ لوگ کفن چہرہ
اب تک سہمے بیٹھے ہیں طوفان کل آیا تھا
جی چاہے تو اور بھی رک لے پلکوں کی چھاؤں میں
میں نے تو تجھ کو وقت کا بس احساس دلایا تھا
روز سویرے ویرانہ بچتا ہے فرازؔ آخر
ہم نے رات بھی خوابوں میں اک شہر سجایا تھا
- کتاب : shab khuun (44) (rekhta website) (Pg. 52)
- اشاعت : 1970
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.