حد نگاہ دھوپ سی بکھری ہوئی لگی
حد نگاہ دھوپ سی بکھری ہوئی لگی
تیرے بغیر ایک سزا زندگی لگی
سوچا تھا میں نے ہنس کے گزر جاؤں گا مگر
چلنے پہ راہ زیست کی کانٹوں بھری لگی
دنیا حسیں ہے اس کی ہر اک شے حسیں مگر
دل کو بھلی لگی تو تری سادگی لگی
اس کا وجود ہو گیا محسوس جس گھڑی
گھر کی ہر ایک چیز مہکتی ہوئی لگی
وہ تلخیٔ قضا ہو کہ رنگینئ حیات
سب میں تری نگاہ کی جادوگری لگی
کہتے ہیں لوگ بے وفا اس کو مگر مجھے
کچھ اپنے پیار اپنی وفا میں کمی لگی
جیسے کہ شب کے ساتھ جڑی رہتی ہے سحر
رنج و خوشی میں بھی یوںہی وابستگی لگی
تو یوں بسا ہوا ہے دل و ذہن میں مرے
جس بزم میں گیا مجھے محفل تری لگی
نظریں چرا کے جاتے اسے آج دیکھ کر
قدموں تلے زمین سرکتی ہوئی لگی
ایسی ہے کیا کہ جان ہی پایا نہ میں اسے
ہستی بس ایک خواب تو کیا خواب سی لگی
گلشنؔ وہ جس گھڑی سے مرے ہم سفر ہوئے
ہر راہ زندگی کی چمکتی ہوئی لگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.