حدیں پھیلیں نظر کی پھر بھی کم بینی نہیں جاتی
حدیں پھیلیں نظر کی پھر بھی کم بینی نہیں جاتی
کہ ہر صورت ابھی ایک آنکھ سے دیکھی نہیں جاتی
زمین دل بہت کچھ نرم کر دی بے قراری نے
مگر ہم ہیں اسی احساس کی سختی نہیں جاتی
حیات جامہ زیب اور نو بہ نو جامے مگر کیا ہے
کہ اس برباد ساماں کی تنک رختی نہیں جاتی
تجلی بے نقاب اور کور آنکھیں کیا قیامت ہے
کہ سورج سامنے ہے اور سیہ بختی نہیں جاتی
مرا ذکر وفا لکھ کر مورخ یہ بھی لکھتا ہے
یہ اک رسم کہن تھی اب کہیں برتی نہیں جاتی
میں کیا منہ لے کے آؤں آپ کے آئینہ خانے میں
یہ صورت ایسی بگڑی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی
تصور سے بھی آگے جستجو کی راہ جاتی ہے
وہاں کی بات لیکن پھر یہاں لائی نہیں جاتی
تکلف بر طرف رسم مروت تہہ کرو رضویؔ
محبت آپ ہوتی ہے محبت کی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.