حدوں سے بڑھ کے مکمل حدود سونپتا ہوں
حدوں سے بڑھ کے مکمل حدود سونپتا ہوں
تری تھکن کو میں اپنا وجود سونپتا ہوں
رگوں میں خون کی حدت سے خشک سالی ہے
میں اس روانی کو رسم جمود سونپتا ہوں
وہ مجھ سے دور تو میں اس سے دور ہونے لگا
میں برگزیدہ اذیت کو سود سونپتا ہوں
میں سونپ دینے کی منزل تلک نہیں پہنچا
مگر کسی کو قیام و سجود سونپتا ہوں
وہ بے زبان خدا کر رہا تھا سرگوشی
میں معرفت کے تناسب سے جود سونپتا ہوں
تو کیا یہ لفظ بھی خالی ہیں معنویت سے
زبور جسم کو روح دؤد سونپتا ہوں
مرا وجود مدینہ شمار ہوتا ہے
میں جب بھی دل سے دہن کو درود سونپتا ہوں
نبی کا بیٹا ہوں نسبت ہے معتبر میری
کسی کو فقر کسی کو نمود سونپتا ہوں
عیاں بھی ہونا ہے لیکن نہاں بھی رہنا ہے
سو غائبانہ ادا کو ورود سونپتا ہوں
مجھے ہے خوف زمانہ نہ نیچے دب جائے
میں اپنے سر کا فلک کو عمود سونپتا ہوں
تو میری آنکھ کے حجرے میں لوٹ آئے گا
میں تجھ کو دونوں جہاں کی حدود سونپتا ہوں
تو دیکھنے کا ارادہ تو باندھ اے کاظمؔ
میں تیری آنکھ کو رمز شہود سونپتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.