ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
ہے آب آب موج بپھرنے کے باوجود
دنیا سمٹ رہی ہے بکھرنے کے باوجود
راہ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفس پہ موت سے ڈرنے کے باوجود
اس بحر کائنات میں ہر کشتیٔ انا
غرقاب ہو گئی ہے ابھرنے کے باوجود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہوئے ہیں پھول نکھرنے کے باوجود
زیر قدم ہے چاند ستارے ہیں گرد راہ
دھرتی پہ آسماں سے اترنے کے باوجود
طوفاں میں ڈوب کر یہ ہوا مجھ پہ انکشاف
پانی تھی صرف موج بپھرنے کے باوجود
میں اس مقام پر تو نہیں آ گیا کہیں
ہوگی نہ صبح رات گزرنے کے باوجود
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
ابہام آگہی سے میں اپنے وجود کا
اقرار کر رہا ہوں مکرنے کے باوجود
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.