ہے اب تو وہ ہمیں اس سرو سیم بر کی طلب
ہے اب تو وہ ہمیں اس سرو سیم بر کی طلب
کہ طائران ہوا سے ہے بال و پر کی طلب
جو کہئے حسن کو خواہش نہیں یہ کیا امکاں
اسے بھی اہل نظر سے ہے اک نظر کی طلب
کمال عشق بھی خالی نہیں تمنا سے
جو ہے اک آہ تو اس کو بھی ہے اثر کی طلب
پری رخوں کو غرض کیا تھی زیب و زینت سے
نہ ہوتی گر انہیں اپنے نظارہ گر کی طلب
طلب سے کس کو رہائی ہے بحر ہستی میں
اگر صدف ہے تو اس کو بھی ہے گہر کی طلب
چمن میں بلبل و گل بھی ہیں اپنے مطلب کے
اسے ہے گل کی طلب اس کو مشت زر کی طلب
جہاں وہ باغ تمنا ہے جس کے بیچ نظیرؔ
جو اک شجر ہے تو اس کو بھی ہے ثمر کی طلب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.